
تھل کا شمار پاکستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں کسانوں کی زندگی کا زیادہ تر دارومدار کھیتی باڑی پر ہے۔ یہاں کی زمین زیادہ تر بارانی ہے اور کسان بارش کے پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ گندم تھل کی سب سے اہم فصل ہے جسے یہاں کے کسان دل سے اگاتے ہیں۔ گندم کی بوائی نومبر کے مہینے میں کی جاتی ہے اور یہ فصل اپریل کے مہینے تک پک کر تیار ہو جاتی ہے۔ کسان اپنی محنت اور پسینہ بہا کر زمین کو قابلِ کاشت بناتے ہیں اور بیج بوتے ہیں۔ ان کے لیے گندم صرف ایک فصل نہیں بلکہ زندگی کا سہارا ہے کیونکہ یہ نہ صرف ان کی گھریلو ضروریات کو پورا کرتی ہے بلکہ آمدنی کا بڑا ذریعہ بھی بنتی ہے۔جب تھل کی کھیتوں میں گندم سنہری ہو کر لہلہاتی ہے تو اس منظر کو دیکھ کر کسانوں کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ وہ اپنی محنت کے ثمر کو دیکھ کر مطمئن ہوتے ہیں۔ گندم کی کٹائی عام طور پر ہاتھ سے کی جاتی ہے اور کئی لوگ مل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ یہ منظر تھل کے کلچر اور روایت کی بھی جھلک دکھاتا ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں۔ کٹائی کے بعد جب گندم کے ڈھیر لگتے ہیں تو کسان اپنے خوابوں کو حقیقت بنتا دیکھتے ہیں۔لیکن تھل کے کسانوں کو ہمیشہ آسانیاں میسر نہیں ہوتیں۔ بارش کم ہونے یا وقت پر نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں متاثر ہوتی ہیں اور کسان کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اکثر اوقات انہیں بیج اور کھاد بھی مہنگے داموں ملتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے باوجود کسان اپنی زمین کو چھوڑتے نہیں بلکہ ہر سال ایک نئی امید کے ساتھ بیج بوتے ہیں کہ شاید اس بار فصل اچھی ہو جائے۔ اگر حکومت کسانوں کو جدید مشینری، پانی کے ذخائر اور کھاد بیج سستے داموں فراہم کرے تو تھل کی زمین سونا اُگل سکتی ہے اور کسان خوشحال ہو سکتے ہیں۔گندم صرف تھل کے کسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے بھی اہم ہے۔ پاکستان میں گندم خوراک کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور تھل کی گندم اپنی کوالٹی کے لحاظ سے نمایاں مقام رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تھل کے کسان اپنی محنت پر فخر کرتے ہیں۔ ان کی محنت کا پھل صرف تھل نہیں بلکہ پورا پاکستان کھاتا ہے۔
Leave a Reply