حالیہ موسمی بارشوں اور دریاؤں میں آنے والے طغیانی کے باعث ملک کے مختلف علاقوں میں ایک بار پھر سیلاب کی تباہ کاریاں سامنے آئی ہیں۔ قدرتی آفات کی اس لہر نے نہ صرف انسانی جانوں کو متاثر کیا ہے بلکہ زراعت، معیشت، تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچے پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ سیلاب کوئی نیا مسئلہ نہیں لیکن اس بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ ہمارے نظام میں اب بھی بڑے خلا موجود ہیں اور ہمیں پائیدار حل کی فوری ضرورت ہے۔
سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے وہ ہیں جو نشیبی زمینوں پر آباد ہیں یا جہاں دریاؤں کے قریب بستیاں موجود ہیں۔ کئی دیہات مکمل طور پر زیرِ آب آ گئے، جس کی وجہ سے ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے۔ ان میں سے اکثر لوگ ابھی تک کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مکانات کی دیواریں گر گئیں، چھتیں بہہ گئیں اور جو لوگ محفوظ رہے وہ اپنا سارا سامان اور گھریلو اشیاء کھو بیٹھے۔ ایسے حالات میں متاثرہ خاندانوں کو خوراک، پانی اور رہائش کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
زراعت کی بات کی جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سیلاب نے کسانوں کی کمر توڑ دی ہے۔ کھڑی فصلیں، جن پر کسانوں نے مہینوں کی محنت اور سرمایہ لگایا تھا، منٹوں میں پانی میں بہہ گئیں۔ کپاس، چاول، مکئی اور باجرہ جیسی فصلیں خاص طور پر متاثر ہوئیں۔ تھل اور جنوبی پنجاب کے کسانوں کا کہنا ہے کہ اگر فصلوں کے نقصان کا فوری ازالہ نہ کیا گیا تو ان کے پاس آئندہ فصل بونے کے لیے بھی وسائل نہیں ہوں گے۔ مال مویشیوں کا نقصان بھی کم نہیں، ہزاروں جانور سیلابی پانی میں بہہ گئے یا بیماریوں کا شکار ہو کر مر گئے۔ یہ وہ سرمایہ ہے جو دیہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔
عوامی مسائل بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی قلت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ متاثرین کو اکثر آلودہ پانی استعمال کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں کا پھیلاؤ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بچوں اور بزرگوں کی صحت خاص طور پر خطرے میں ہے۔ تعلیمی ادارے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ کئی سکول پانی میں ڈوب گئے یا عمارتوں کو نقصان پہنچا جس کے باعث بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
حکومتی سطح پر کچھ اقدامات ضرور کیے جا رہے ہیں۔ ریسکیو ادارے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں، ریلیف کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور خوراک و ادویات کی تقسیم بھی کی جا رہی ہے۔ فوج، رینجرز اور دیگر ادارے بھی امدادی کارروائیوں میں شریک ہیں۔ لیکن متاثرین کی شکایات یہ ہیں کہ امداد ناکافی ہے اور زیادہ تر دیہات تک ابھی تک کوئی سہولت نہیں پہنچی۔ سڑکوں اور پلوں کو نقصان پہنچنے سے آمد و رفت بند ہو چکی ہے جس کی وجہ سے ریسکیو ٹیموں کو دشواری پیش آ رہی ہے۔
اس کے علاوہ غیر سرکاری تنظیمیں (NGOs) اور مقامی رضاکار بھی اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین تک امداد پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی جگہوں پر لوگ اپنی جیب سے کھانے پینے کی اشیاء، کپڑے اور دیگر ضروری سامان متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ یہ سب کوششیں قابلِ تعریف ہیں لیکن موجودہ بحران کی شدت دیکھتے ہوئے یہ ناکافی ہیں۔
سیلاب کی تباہ کاریوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت عیاں کر دی ہے کہ ہم بطور قوم اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہر سال بارشوں اور دریاؤں کے طغیانی کے بعد یہی صورتحال سامنے آتی ہے۔ وقتی امداد اور ریلیف کیمپ عارضی حل ہیں، لیکن اصل ضرورت ہے کہ طویل المدتی منصوبہ بندی کی جائے۔ مضبوط ڈیموں اور حفاظتی پشتوں کی تعمیر، نکاسی آب کے بہتر نظام، بروقت وارننگ سسٹم اور مقامی سطح پر آگاہی پروگرام اس مسئلے کو کم کر سکتے ہیں۔
عوامی سطح پر بھی رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ دریا کے کنارے یا نشیبی علاقوں میں غیر منصوبہ بندی کے ساتھ بستیاں بسانے سے گریز کرنا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ متاثرین کی آبادکاری کے لیے محفوظ مقامات پر رہائشی منصوبے بنائے جائیں تاکہ ہر سال وہی لوگ متاثر نہ ہوں۔ اسی طرح، زراعت میں جدید ٹیکنالوجی اور سیلاب برداشت کرنے والی فصلوں کی کاشت کو فروغ دینا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
آخر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ سیلاب صرف ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی نظام کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اگر ہم نے آج سے منصوبہ بندی شروع نہ کی تو آنے والے برسوں میں صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ سیلاب زدہ عوام کو فوری امداد اور بحالی کی ضرورت ہے، لیکن ساتھ ہی یہ وقت اس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ مستقبل کے لیے ایسے اقدامات کیے جائیں جو ہمیں ہر سال اس کڑی آزمائش سے بچا سکیں۔
Leave a Reply